پاکستان میگزین آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اب آپ اردو اور انگریزی زبان میں تازہ ترین خبریں، مضامین اور تجزیات کا مطا لعہ ایک ہی جگہ پر کر سکتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے مسایئل، عوام کی مشکلات، حکومت کی کار کر دگی ، کاروباری مضامین، مزہب ، تہز یب، ادب، بین ا لا قو امی حالات اور بہت کچھ۔ آپ اگر اپنی معلو مات اور مضامین یہاں شامل کرناچاہیں تو ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

Wednesday, November 16, 2011

Jang Blog Updated : 11/15/2011 جبرکا خاتمہ۔۔ انتظار ابھی طویل ہے

Jang Blog
Updated : 11/15/2011 1:52:55 AM

جبرکا خاتمہ۔۔ انتظار ابھی طویل ہے!!!
سید شہزاد عالم کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ہمارے ملک میں رائج سیاست دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اس کے سینے میں دل تو کیا کھوپڑی میں بھیجہ بھی نہیں ہے۔ایسی ایسی سیاسی قلابازیاں کھائی جاتی ہیں کہ دیکھنے والے اگر صاحب ذوق ہوں تو عش عش کراٹھیں ورنہ کھوپڑی سہلاتے رہیں اور پلے کچھ نہ پڑے۔ پچھلے کچھ دنوں سے سیاست میں گرمی بڑھنے سے گرماگرمی بھی بڑھ گئی ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کو الٹا لٹکا کر سیدھا کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سیاسی منہ والے بڑی بڑی سیاسی باتیں کر رہے ہیں اور بڑے بڑے سیاسی منہ والے چھوٹی چھوٹی سیاسی باتیں کر رہے ہیں۔ جو اندر ہیں وہ باہر آنے کے لئے بیتاب ہیں اور جو باہر ہیں وہ اندر جھانک جھانک کر دیکھ رہے ہیں لیکن گھپ سیاسی اندھیرے میں انہیں کچھ دکھائی تونہیں دیتا لیکن تیز کانوں سے بوٹوں کی چاپ سن کرخود کو تسلی دیتے رہتے ہیں۔ وطن عزیز میں سیاست کا خانہ ہمیشہ خراب رہا ہے سو اس خانہ خراب سے خیر کی توقع عبث ہے۔ سیاست اب برائے خدمت نہیں بلکہ نفع بخش کاروبار ہے ۔ سیاسی جماعتیں اب ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح بنائی اور چلائی جاتی ہیں۔ بیرون ممالک شاخیں نہ صرف ، پبلک ریلیشنز، ڈالرز اور پاؤنڈز میں چندہ جمع کرنے اور پبلسٹی کے کام میں استعمال ہوتی ہیں بلکہ مخالف لیڈر کی آمد کے موقع پر آزادی اظہار کی آڑ میں مظاہرہ کرنے اور اس پر جوتا پھینک کر شہرت حاصل کرنے کے کام بھی آتی ہیں۔ ملک کے اندر جائنٹ وینچرکی طرح اتحادی سیاست کا انداز اپنایا جاتا ہے تاکہ مال مل بانٹ کر کھایا جائے اور محروم رہنے والا شور مچا کر سب کو متوجہ نہ کرے۔ ایک پہر کی دعوت پر لاکھوں روپے کا کھانا بنوایا جاتا ہے صرف سیاسی خوشنودی کے لئے لیکن چند کلومیٹرز دور لاکھوں لوگ کئی مہینوں سے کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں ان کے لئے کچھ نہیں۔۔۔ ہمدردی کے دو بول بھی نہیں۔ چاہے جمہوریت ہویا آمریت، کہانیاں وہی رہتی ہیں بس چہرے اور کردار بدل جاتے ہیں۔ جنہیں مال بنانے کے مواقع میسر ہیں انہیں الیکشن دور دکھائی دیتے ہیں اور جو ابھی اس سے محروم ہیں وہ الیکشن کے لئے بیتاب ہیں۔ اس سارے قصے کا اہم حصہ اس ملک کی عوام ہیں جسے بنا دیا گیا ہے خوار، بے حال اور بد حال لیکن اس جاری و ساری قصے کا اختتام بہرحال اسی کے ہاتھ میں ہے۔ دیکھنا بس یہ ہے کہ کب اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹے گا ۔۔۔ کب اس کی ویران آنکھیں میں انتقام کے شعلے لپکیں گے اور کب ظلم کا یہ نظام تہس نہس ہو گا۔ کئی عشرے گزر چکے ہیں اور نہ جانے۔۔۔ انتظار کتنا طویل ہے؟

No comments:

Post a Comment